تفسير ابن كثير



سورۃ محمد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ[32] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ[33] إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ[34] فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ[35]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی، اس کے بعد کہ ان کے لیے سیدھا راستہ صاف ظاہر ہو گیا، وہ ہرگز اللہ کا کوئی نقصان نہ کریں گے اور عنقریب وہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا۔ [32] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔ [33] بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، پھر اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر تھے تو انھیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ [34] پس نہ کمزور بنو اور نہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی سب سے اونچے ہو اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تم سے تمھارے اعمال کم نہ کرے گا۔ [35]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے لوگوں کو روکا اور رسول کی مخالفت کی اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت ﻇاہر ہو چکی یہ ہرگز ہرگز اللہ کا کچھ نقصان نہ کر سکیں گے۔ عنقریب ان کے اعمال وه غارت کردے گا [32] اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو [33] جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے اوروں کو روکا پھر کفر کی حالت میں ہی مرگئے (یقین کر لو) کہ اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا [34] پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند وغالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، ناممکن ہے کہ وه تمہارے اعمال ضائع کر دے [35]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جن لوگوں کو سیدھا رستہ معلوم ہوگیا (اور) پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ خدا کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے۔ اور خدا ان کا سب کیا کرایا اکارت کردے گا [32] مومنو! خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو [33] جو لوگ کافر ہوئے اور خدا کے رستے سے روکتے رہے پھر کافر ہی مرگئے خدا ان کو ہرگز نہیں بخشے گا [34] تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم تو غالب ہو۔ اور خدا تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا [35]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 32، 33، 34، 35،

نیکیوں کو غارت کرنے والی برائیوں کی نشاندہی ٭٭

اللہ سبحانہ و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفر کرنے والے راہ اللہ کی بندش کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہ ہونے والے اللہ کا تو کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں کل قیامت والے دن یہ خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی بھی ان کے پاس نہ ہو گی۔ جس طرح نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح اس کے بدترین جرم و گناہ ان کی نیکیاں برباد کر دیں گے۔

امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ اپنی کتاب الصلوۃ میں حدیث لائے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جیسے کہ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی یہ «أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ» [47-محمد:33] ‏‏‏‏، اتری اس پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ڈرنے لگے کہ گناہ نیکیوں کو باطل نہ کر دیں۔
8547

دوسری سند سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ ہر نیکی بالیقین مقبول ہے یہاں تک کہ یہ آیت «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48] ‏‏‏‏ اتری تو کہنے لگے کہ ہمارے اعمال برباد کرنے والی چیز کبیرہ گناہ اور بدکاریاں کرنے والے پر انہیں خوف رہتا تھا اور ان سے بچنے والے کے لیے امید رہتی تھی۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کو اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کی چیز ہے اور مرتد ہونے سے روک رہا ہے جو اعمال کو غارت کرنے والی چیز ہے۔

پھر فرماتا ہے ” اللہ سے کفر کرنے والے، راہ اللہ سے روکنے والے اور کفر ہی میں مرنے والے اللہ کی بخشش سے محروم ہیں “۔

جیسے فرمان ہے کہ ” اللہ شرک کو نہیں بخشتا “۔

اس کے بعد جناب باری «عز اسمہ» فرماتا ہے کہ ” اے میرے مومن بندو! تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں، زور و غلبہ میں، تعداد و اسباب میں تم قوی ہو “۔

ہاں جبکہ کافر قوت میں، تعداد میں، اسباب میں تم سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بیشک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر معاہدہ کر لیا۔

پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوشخبری سناتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس وجہ سے نصرت و فتح تمہاری ہی ہے تم یقین مانو کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجر و ثواب تمہیں عنایت فرمائے گا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
8548



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.